غزل
دریا رکا ہوا تھا مگر میں سفر میں تھا
اک روشنی کا عکس بھی میرے ہنر میں تھا
اوڑھا ہوا تھا سچ کا لبادہ وجود نے
لیکن شعور جھوٹ کے اندھے نگر میں تھا
ہر راستے کی دھول پروں میں سمیٹ کر
انجان منزلوں کا پرندہ سفر میں تھا
بازار میں تھی ہنستے چراغوں کی روشنی
بجھتے ہوئے دیے کا دھواں میرے گھر میں تھا
کندہ تھا خواہشوں کا فسانہ فصیل پر
زندہ حقیقتوں کا لہو اک کھنڈر میں تھا
اتری تھی رات شہر میں آنسو لیے ہوئے
اک قافلہ سحر کا کہیں رہ گزار میں تھا
طاہرؔ مرے وجود کی بولی تو دے گیا
شاید وہ اپنی ذات کے نیلام گھر میں تھا
طاہر حنفی