غزل
در ہوس پہ شرافت نے گھٹنے ٹیک دیے
غریب گھر کی ضرورت نے گھٹنے ٹیک دیے
ہوس نژاد پروفیسروں نے ظلم کیا
کتاب چھوڑ کے عفت نے گھٹنے ٹیک دیے
سنا ہے آج کسی مافیا کی پیشی تھی
سنا ہے آج عدالت نے گھٹنے ٹیک دیے
قریب تھا کہ مرے حق میں بولتا انصاف
مقدمے کی سماعت نے گھٹنے ٹیک دیے
غلام دیکھ کے شہزادی نے سلام کیا
تو بادشاہ سلامت نے گھٹنے ٹیک دیے
ہمارے دم سے محبت کا بول بالا تھا
ہمارے بعد محبت نے گھٹنے ٹیک دیے
ہماری پیار کی عادت نہیں گئی اکرامؔ
ہمارے سامنے عادت نے گھٹنے ٹیک دیے
اکرام عارفی