نظم
دسمبر کے کُہرے کی چادر لپیٹے
اداسی بھرے دن میں سمٹا ہُوا میں
وفا کی جواں دھوپ کی خواہشوں میں
امیدوں کے اک سبز سے لان میں ہوں
جہاں ایک ٹیبل سجا حسرتوں کا
کئی پھول بکھرے ہوئے چاہتوں کے
کہیں دور سے ہلکی ہلکی سی آواز آتی ہے
جگجیت و مہدی حسن کی
وہیں تیری یادوں کا برفاب جھونکا
نگاہوں سے اشکوں کی فریاد سُن کر
تیرے راستے کے سبھی خار چُن کر
دسمبر کے کُہرے کی چادر لپیٹے
خموشی سے پہلو میں بیٹھا ہُوا ہے
شہباز نیر