loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 10:13

دشت کی صدیوں پرانی آنکھ میں

دشت کی صدیوں پرانی آنکھ میں
ہے ہوا کی نوحہ خوانی آنکھ میں

اسمِ اللہ کے تصور سے گرے
آبشارِ بیکرانی آنکھ میں

لال قلعے سے قطب مینار تک
وقت کی ہے شہ جہانی آنکھ میں

لکھ رہا ہے اس کا آیت سا بدن
ایک تفسیرِ قرانی آنکھ میں

دودھیا باہیں ، سنہری چوڑیاں
گھومتی ہے اک مدھانی آنکھ میں

دیکھتا ہوں جو دکھاتا ہے مجھے
یار کی ہے حکمرانی آنکھ میں

برف رْت کے اس تعلق کی غزل
دھوپ نے ہے گنگنانی آنکھ میں

اجڑے خوابو!، ٹوٹی امیدو!سنو
ایک بستی ہے بسانی آنکھ میں

چل رہی ہے اپنے کرداروں کے ساتھ
فلم کی اب تک کہانی آنکھ میں

چاہتی ہے کیوں بصارت تخلیہ
کون ہے ظل ِ زمانی آنکھ میں

کپکپاتے ساحلوں سے ہمکلام
دھوپ ہے کتنی سہانی آنکھ میں

آمد آمد شاہِ نظارہ کی ہے
سرخ مخمل ہے بچھانی آنکھ میں

تجھ سے پہلے توہواکرتے تھے اور
روشنی کے کچھ معانی آنکھ میں

پہلے ہوتے تھے مقاماتِ عدم
اب فقط ہے لا مکانی آنکھ میں

دیکھتے رہنا ہے نقشِ یار بس
بزمِ وحشت ہے سجانی آنکھ میں

بس یہی ہیں یادگاریں اپنے پاس
بس یہی آنسو نشانی آنکھ میں

اُس حویلی کے کھنڈر کی آج بھی
چیختی ہے بے زبانی آنکھ میں

زیرِآب آنے لگی تصویرِیار
پھیلتا جاتا ہے پانی آنکھ میں

شکرہے اُس اعتمادِذات کی
آگیا ہوں غیر فانی آنکھ میں

دیکھ آئی ہے کسی کو اُس کے ساتھ
اب نہیں ہے خوش گمانی آنکھ میں

منصور آفاق

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم