Dua Salam Nahi Naama o Payyam Nahi
غزل
دعا سلام نہیں نامہ و پیام نہیں
کچھ اپنے چاہنے والوں سے ان کو کام نہیں
وہ کیا تھی شام جدائی نہ پوچھ لگتا تھا
کہ آخری تو کہیں زندگی کی شام نہیں
جو غیر جیسا ہو وہ کس لیے ہمارا ہو
جو اتنا اپنا لگے کیوں ہمارے نام نہیں
کسی غزال کے پیچھے بھٹکتا ہوگا کہیں
سبکتگین کا میرے کہیں قیام نہیں
کشادہ دل ہے ترا ہم بھی پڑ رہیں گے کہیں
رہے بسے کوئی کچھ اس سے ہم کو کام نہیں
میاں کہاں چلے آتے ہو منہ اٹھائے رکو
یہ زندگی ہے مری شاہراہ عام نہیں
کتاب ڈال دی کوڑے میں میری یہ کہہ کے
قصیدہ گویوں میں میرے ترا تو نام نہیں
نسیم سید
Naseem Syed