Dua ko Haath Mra jab kabhi utha hooga
غزل
دعا کو ہاتھ مرا جب کبھی اٹھا ہوگا
قضاوقدر کا چہرہ اتر گیا ہوگا
جو اپنے ہاتھوں لٹے ہیں بس اس پہ زندہ ہیں
خدا کچھ ان کے لیے بھی تو سوچتا ہوگا
تری گلی میں کوئی سایہ رات بھر اب بھی
سراغ جنت گم گشتہ ڈھونڈتا ہوگا
جو غم کی آنچ میں پگھلا کیا اور آہ نہ کی
وہ آدمی تو نہیں کوئی دیوتا ہوگا
تمہارے سنگ تغافل کا کیوں کریں شکوہ
اس آئنے کا مقدر ہی ٹوٹنا ہوگا
ہے میرے قتل کی شاہد وہ آستیں بھی مگر
میں کس کا نام لوں سو بار سوچنا ہوگا
یہ میری پیاس کے ساغر تیرے لبوں کی شراب
رواج و رسم محبت کا معجزہ ہوگا
پھرآرزو کےکھنڈر رنگ و بو میں ڈوب چلے
فریب خوردہ کوئی خواب دیکھتا ہوگا
ستارےبھی تری یادوں کے بجھتے جاتے ہیں ہیں
غم حیات کا سورج نکل رہا ہوگا
صدا کسے دیں نعیمیؔ کسے دکھائیں زخم
اب اتنی رات گئے کون جاگتا ہوگا
عبدالحفیظ نعیمی
Abdul Hafeez Naeemi