دل اسیرِ گردشِ آلام ہے
صبح اپنی ہے نہ اپنی شام ہے
ترکِ الفت کو زمانہ ہوگیا
آج بھی تیرا لبوں پہ نام ہے
دیدہء بینا بھی ہونا چاہیے
بزمِ ہستی جلوہ گاہِ عام ہے
عقل ہے حالانکہ سرگرمِ عناد
پر جنوں ہی موردِ الزام ہے
عشق کی روداد میں اے ہم نشیں
پیشتر آغاز سے انجام ہے
دل میں اک طوفان سا برپاہے شاد
زندگی شاید اسی کا نام ہے
شاد بہٹوی