دل اگر تیری محفل بنے
ناز کرنے کے قابل بنے
جن پہ تیری توجہ ہوئی
ذرے وہ ماہ کامل بنے
لطف جب ہے کہ میری نظر
تیرے جلووں کے قابل بنے
مجھ کو وہ غم عطا کیجیے
زندگی کا جو حاصل بنے
عشق سے ہو رہی ہے جلا
کیوں نہ اب آئینہ دل بنے
وہ کہیں ہاتھ پھیلائے کیوں
تیرے در کا جو سائل بنے
جس پر پڑ جائے تیری نظر
کیوں نہ دل اس کا بسمل بنے
شکر کرتا رہوں گا تیرا تیرا
زندگی لاکھ مشکل بنے
کھیلتا ہوں میں طوفان میں
کیوں نہ ہر موج ساحل بنے
اب تو صادقؔ ہے یہ آرزو
عشق ہی میری منزل بنے
صادق دہلوی