غزل
دل بے بس ہے جب چاہو تم قید کرو آزاد کرو
سب کچھ تم پر چھوڑ دیا ہے رکھو یا برباد کرو
آپ کے گل ہیں آپ کا گلشن آپ یہاں مجبور نہیں
کلیوں کی آنکھوں میں جھانکو پھولوں کے دل شاد کرو
سب کہتے ہیں آپ ہمارے میخانے کے ساقی ہیں
تشنہ لبوں کے حق میں بڑھ کر اب تو کچھ ارشاد کرو
موسم بدلا کلیاں مل کر گیت ملن کے گاتی ہیں
اب تو قید تنہائی سے دل کو مرے آزاد کرو
ہجر کے شکوے تنہائی کے خوف کی باتیں رہنے دو
جو دن مل کر ساتھ گزارے ہیں وہ بھی تو یاد کرو
یا دنیا میں گھل مل جاؤ یا دنیا سے دور رہو
ٹوٹے پھوٹے دل سے نغمے چھیڑو اور فریاد کرو
سب کہتے ہیں آپ کے در سے فیض کا چشمہ جاری ہے
میں بھی تو دل ہار چکا ہوں میری بھی امداد کرو
زیدیؔ کلیوں کی بے باکی سے اب کیوں گھبراتے ہو
کتنے شوخ اور چنچل تھے تم اپنے دن بھی یاد کرو
ابوالفطرت میر زیدی