Dil tu Dukha per Aankh Main riqaat nahi hoi
غزل
دل تو دکھا ، پر آنکھ میں رقت نہیں ہوئی
صد شکر قیامت پہ قیامت نہیں ہوئی
اک سانپ کے ڈسنے کا نشاں تھا کلائ پر
سو دوست کی پہچان میں دقت نہیں ہوئی
لبریز آنسوؤں سے لبالب تھی چشم تر
لیکن خلاف گریہ بغاوت نہیں ہوئی
ھم کوبھی اپنے صبر پہ وہ ناز تھا کہ پھر
دنیا کے رو بہ رو کھبی وحشت نہیں ہوئی
کچھ بات تو ضرور تھی روحی پس گماں
جو اسکی بے وفائ پہ حیرت نہہں ہوئی
ریحانہ روحی
Rehana Roohi