غزل
دل تو ہر چیز پہ بچہ سا مچل جاتا ہے
جیب جب ڈانٹنے لگتی ہے سنبھل جاتا ہے
جب بھی میں سوچتا ہوں رات نہیں جانے کی
دور اس گھر میں کوئی بلب سا جل جاتا ہے
رات کے وقت ابھرتا ہے جنوں کا سورج
دن نکلتے ہی کسی چاند میں ڈھل جاتا ہے
یہ جو سریا ہے تفاخر کا تری گردن میں
اژدہا بن کے یہ قوموں کو نگل جاتا ہے
ایک ہی بات بنا دیتی ہے ہر بگڑی بات
ایک ہی شخص زمانے کو بدل جاتا ہے
تو تو نرمیؔ ہے مری جان اسی چکر میں
میر صاحب کا پلیتھن بھی نکل جاتا ہے
عمران شمشاد