غزل
دل لگا بیٹھا ہوں اس عیار سے
جس کو نفرت ہے وفا سے پیار سے
دیکھیے ہم کس قدر ہیں بے نیاز
کچھ نہ مانگا حسن کی سرکار سے
اے نگاہ ناز تیرا شکریہ
مطمئن ہے دل تری گفتار سے
کس لئے ہوں زندگی سے بد گماں
کاش وہ پوچھے کسی دن پیار سے
زندگی بھی ہم سے ہے بیزار سی
زندگی سے ہم بھی ہیں بیزار سے
ہر بشر کے واسطے ہے لازمی
کام لے شیرینئ گفتار سے
آپ کی خاطر ہوئے برباد ہم
آپ بھی ہیں ہم سے کچھ بیزار سے
دوستی ان سے نبھے گی کس طرح
میں ہوں دیوانہ تو وہ ہوشیار سے
غیر تو پھر غیر ہیں عاصیؔ مگر
آپ بھی کچھ کم نہیں اغیار سے
پنڈت ودیا رتن عاصی