غزل
دل محبت سے بھر نہ جائے کہیں
تو بھی یک دم مکر نہ جائے کہیں
تھام لیتی ہوں خود کو پل پل میں
دل یہ اشکوں سے بھر نہ جائے کہیں
میں زمانے سے تھک چکی یارو
اب یہ میری نظر نہ جائے کہیں
آنے والے خزاں کے موسم میں
ہار تنہا شجر نہ جائے کہیں
آنکھ پرنم ہے لب پہ خاموشی
موج دریا اتر نہ جائے کہیں
ان تغافل بھری اداؤں سے
میری ہستی بکھر نہ جائے کہیں
کوئی اس کو مری خبر دے دے
وقت جلدی گزر نہ جائے کہیں
عمود ابرار احمد