غزل
دل میں دھڑکن ہے نہ آنکھوں میں نظر باقی ہے
پھر بھی سب کچھ ہے غم یار اگر باقی ہے
اور کچھ لوٹ لے افتاد محبت کے مزے
کچھ تماشا جو ابھی شعبدہ گر باقی ہے
ہم کسی اور کی دہلیز پہ سر کیوں پھوڑیں
سر سودا زدہ باقی ترا در باقی ہے
قوت عشق پہ تکیہ بھی ہے توہین نیاز
کیوں ابھی تک مری آہوں میں اثر باقی ہے
جتنے در بند ہیں اللہ کرے بند رہیں
تیرے بندوں کے لئے جب ترا در باقی ہے
اور کچھ حق جنوں ہے تو ادا کر دیں گے
ایک بھی تار گریباں میں اگر باقی ہے
پستیٔ عقل ہے تاریکیٔ قسمت کا سوال
شب یہ کہتی ہے کہ ہنگام سحر باقی ہے
عیب کو عیب سمجھنا تو نئی بات نہیں
عیب یہ بھی ہے کہ احساس ہنر باقی ہے
بیڑیاں کٹ گئیں ہر پائے نگہ کی کاملؔ
اب تو بے قید بس اک ذوق نظر باقی ہے
کامل شطاری