Dil Main zakhmoon ki naee fasl Uganay Nikly
غزل
دل میں زخموں کی نئی فصل اگانے نکلے
درد کے پھول بیاباں میں کھلانے نکلے
ہر عمارت پہ نئے سال کا کتبہ دیکھا
پہونچے نزدیک تو آثار پرانے نکلے
پہلے ہر در پہ رکھے شعلہ بیانی کے دئے
جل اٹھا شہر تو پھر آگ بجھانے نکلے
چاند جب روٹھ کے رخصت ہوا بام و درسے
لوگ تپتے ہوئے سورج کو منانے نکلے
ہر قدم تلخیِ تعبیر کے پتّھر برسے
خواب زاروں کو کبھی ہم جو سجانے نکلے
دل نے جب قیدِ تعلق سے رہائی مانگی
قربتوں کے لئے کچھ اور بہانے نکلے
ہم نے سمجھا تھا جنہیں دوست ہمیشہ سنبل
جب پڑا وقت وہی دل کو دکھانے نکلے
صبیحہ سنبل
Sabiha Sunbal