دل میں نہیں ہے کوئی تمنا ترے بغیر
دشوار ہو گیا مجھے جینا ترے بغیر
آہیں لبوں پہ اشک ہیں آنکھوں میں مستقل
اک حشر سا ہے قلب میں برپا ترے بغیر
ساغر ہو مے ہو ابر ہو گلشن ہو کچھ بھی ہو
بے کار ساری نعمتیں عظمیٰ ترے بغیر
خوش خوش ہیں اہلِ شہر کے ہیں با مراد سب
حسرت سے ہوں ہر ایک کو تکتا ترے بغیر
تجھ سے ہی فکرِ شعر میں رنگینیاں بھی تھیں
اب تو نہیں تو شعر ہے پھیکا ترے بغیر
تیرے ہی دم سے اس میں نہیں ہیں یہ رونقیں
یونہی رہے گی شاد یہ دنیا ترے بغیر
شاد بہٹوی