غزل
دل میں ہے جس کی ارزو اب تک
اس کی خوشبو ہے چار سو اب تک
اس نے پھولوں سے گفتگو کی تھی
ہے فدا ان پہ رنگ و بو اب تک
ٹوٹ کے پھول بکھر گئے کب کے
کیوں ہے بھنورے کی جستجو اب تک
دور رہ کے بھی ہوں نشانے پر
اس کی بدلی نہیں ہے خو اب تک
غم جانا پہ ہے خزاں طاری
غم دوراں میں ہے نمو اب تک
سیپ جیسی ہے چاہ روبی کی
سچے موتی کی ارزو اب تک
روبینہ راجپوت