غزل
دل و نگاہ کو کب ان کا مستقر جانا
خیال و خواب کو اک عرصۂ سفر جانا
تمہارے خواب پس انداز کر لیے ہم نے
اور اپنے آپ کو پھر کتنا معتبر جانا
یہ کارواں تو نہ جانے کہاں تلک جائے
تمہیں جہاں کہیں منزل ملے ٹھہر جانا
گہر صدف میں نہ رہتا تو پھر کہاں رہتا
اس ایک قطرے کو کس نے عزیز تر جانا
سرشت ہے یہی اس کی بچائے گا دامن
اگر وہ بات بدل دے تو ضبط کر جانا
سمجھ تو لینے دو ان نفرتوں کا کوئی جواز
پھر اس کے بعد مرے دل سے بھی اتر جانا
جو کچھ کہا اسے احوال واقعی سمجھا
جو سچا شعر نہ سمجھا اسے ہنر جانا
بڑا سکون بڑی عافیت ملے گی نسیمؔ
کسی کی بزم سے اٹھو تو اپنے گھر جانا
وضاحت نسیم