دل چاک کرو ہو نہ جگر چاک کرو ہو
تم پھر بھی لہو رنگ یہ پوشاک کرو ہو
اب تم سے سنبھالے نہیں جاتے یہ خم و پیچ
کیا فائدہ زلفوں سے جو پیچاک کرو ہو
پیروں کی دھمک سے تو نہ اُلٹی یہ زمیں بھی
کیا زیرِ قدم سرحدِ افلاک کرو ہو
کیوں خود کو جلاتے ہو الاؤ میں حسد کے
کیوں اپنے تخیل کا چمن راکھ کرو ہو
"یہ جسم بھی کل منصفی چاہے گا یقینا
تم راکھ کرو ہو یا اسے خاک کرو ہو
کیا سوچ کے موہوم سی جنبش سے قلم کی
ناپاک ہیں جو لوگ انہیں پاک کرو ہو
بک جاؤ گے اک دن اسی معصوم کے ہاتھوں
تم جس کسی معصوم کو چالاک کرو ہو
ہیں زاغ و زغن تاک میں نظروں کو گڑائے
کب کشتِ بدن تم خس و خاشاک کرو ہو
خسروؔ کبھی خود اس کا مزہ تم بھی تو چکھو
جو نوکِ زباں خنجرِ سفاک کرو ہو
(فیروز ناطق خسروؔ)