غزل
دل کا اور حال مضافات کا کب اچھا ہے
پر تجھے دیکھ کے لگتا ہے کہ سب اچھا ہے
ایک تصویر میں لگتا ہے کہ ہم بھی خوش تھے
ایک آواز سے لگتا ہے کہ سب اچھا ہے
میری دنیا میں کوئی چیز ٹھکانے پہ نہیں
بس تجھے دیکھ کے لگتا ہے کہ سب اچھا ہے
سوچنے بیٹھیں تو اصلاح کی صورت ہی نہیں
دیکھنے میں یہی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے
یہ قطاریں تیرے بیمار کے دیدار کی ہیں
تو نے جب شور مچا رکھا تھا اب اچھا ہے
کوئی استاد کی اصلاح کی صورت یا رب
علم بہتر ہے نہ حضرت کا ادب اچھا ہے
لوگوں کو آئینہ دکھلائیں نہ پتھر کھائیں
ارشمیدس کے لئے باتھ کا ٹب اچھا ہے
ادریس بابر