غزل
دل کو شباب اک بت کافر کا بھا گیا
جس دن کو ڈر رہے تھے ہم آخر وہ آ گیا
اب دل سے شوق نالۂ عرش آشنا گیا
ذوق کشیدن ستم ناروا گیا
بتلائیں کیا کہ آیا وہ کیا اور کیا گیا
آیا جو قہر بن کے تو بن کربلا گیا
دم ضبط درد عشق سے میرا نہ بچ سکا
جو غم میں کھا رہا تھا وہی مجھ کو کھا گیا
لطف حیات ہے تپش و اضطراب میں
پہلو میں درد اٹھ کے مجھے یہ بتا گیا
ہر رخنۂ قفس ہے در فیض سرمدی
آزادیاں اگر گئیں اپنی تو کیا گیا
سرمایۂ درستیٔ دل ہے شکستگی
یہ دل شکن سخن وہ ستم گر سنا گیا
افسردگی سی چھا گئی حضار بزم پر
اس بزم میں جو بیدلؔ درد آشنا گیا
بیدل عظیم آبادی