غزل
دل کھول کر ہنسیں نہ تو آنسو بہائیں لوگ
چیخوں کو پھر بتاؤ کہ کیسے دبائیں لوگ
رہنا پڑے گا ایسے ہی تا زندگی ہمیں
جو دن گزر گۓ ہیں انھیں بھول جائیں لوگ
پہلے تو دل سے دل کو ملانے کی بات تھی
اب حکم یہ ہوا ہے کہ دوری بنائیں لوگ
لاشوں کے اس ہجوم میں اک فکر یہ بھی ہے
کس کو اتاریں قبر میں کس کو جلائیں لوگ
بھولے سے بھی نہ بھولے گا سن دو ہزار بیس
جو دل پہ نقش ہو گیا کیسے مٹا ئیں لوگ
دولت سے بھی سکون میسر نہیں ہوا
نصرت کا مشورہ ہے کہ نیکی کمائیں لوگ
نصرت عتیق گورکھپوری