دل کی بات نہ مانی ہوتی عشق کیا کیوں پیری میں
اپنی مرضی بھی شامل ہے اپنی بے توقیری میں
درد اٹھا تو ریزہ دل کا گوشۂ لب پر آن جما
خوش ہیں کوئی نقش تو ابھرا بارے بے تصویری میں
قید میں گل جو یاد آیا تو پھول سا دامن چاک کیا
اور لہو پھر روئے گویا بھولے نہیں اسیری میں
جانے والے چلے گئے پر لمحہ لمحہ ان کی یاد
دکھ میلے میں انگلی تھامے ساتھ چلی دل گیری میں
طوق گلے کا پاؤں کی بیڑی آہن گر نے کاٹ دیئے
اپنے آپ سے باہر نکلے زور کہاں زنجیری میں
شکر ہے جتنی عمر گزاری نان و نمک کی فکر نہ تھی
ہاتھ کا تکیہ خاک کا بستر حاصل رہے فقیری میں
توصیف تبسم