دم بخود ہے آسماں کہ پھر علی سجدےمیں ہے
جان ِ جانان محمد ہے ولی ، سجدے میں ہے
خاک کربل ناز کر ، ابنِ علی سجدے میں ہے
نور پھیلا چار سو ، نورِ نبی سجدے میں ہے
جیسے ہی توفیق مدحت شان داور میں ملی
منقبت ساری کی ساری شکر کے سجدے میں ہے
سرخی ء حسن نبوت اور دوُچند ہوگئی
گلشن ِ زہرہ کی دیکھو ہر کلی سجدے میں ہے
پھر گلاب دین احمد کی بڑھی رعنائیاں
پھر سے آل ِ مصطفی ٰ کی پنکھڑی سجدے میں ہے
ہیں حصار ِ خوف میں سب بھیڑئیے سہمے ہوئے
نرغہ ء گمراہ میں شیر جلی سجدے میں ہے
دینِ احمد پہ ہے احساں سجدہ ء شبیر کا
آج تک اُن ﷺ کا جو ہر اک امتی سجدے میں ہے
چوما کرتے تھے نبیﷺ فرطِ عقیدت سے جسے
آج وہ حلقوم دیکھو آخری سجدے میں ہے
ابنِ مفتی سید ایاز مفتی