دنیائے اردو کا معتبر حوالہ شفیق مراد ایک شاعر ایک وکیل

انٹرویو۔ علی شاہ۔منکیرہ

سوال۔آپ کا مختصر تعارف
جواب۔میرا نام شفیق احمد قمر ہے ۔جبکہ قلمی نام شفیق مراد ؔ ہے۔ 1960 میں لاہور میں پیدا ہوا۔پنجاب یورنیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد پنجاب یورنیورسٹی لاء کالج لاہور سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1983میں شعبہ وکالت سے منسلک ہو گیا۔1987میں جرمنی آگیا اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
سوال۔قانون اور وکالت کے شعبے کو کیسا محسوس کیا
جواب۔قانون کا مضمون میرا پسندیدہ مضمون تھا اور آج بھی ہے۔مجھے بچپن سے قانون پڑھنے اور وکیل بننے کا شوق تھا قانون کسی بھی معاشرے کی اصلاح کرنے بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ایک فرد کو معاشرے کا صحتمند شہری بنانے میں معاونت اور رہنمائی کرتا ہے۔بلکہ میں کہنے میں حق بجانب ہوں کہ نظام کائنات بھی قانون کے مطابق چل رہا ہے جسے ہم قانون ِ قدرت کہتے ہیں۔یہ مضمون اپنے اندر جس قدراہمیت اور تقدس رکھتا ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ کچہریوں میں قانون کے تقدس کو اُسی طرح پامال کیا جاتا ہے۔قانون کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں قانون کی خلاف ورزی قانونی طریقے سے کی جاتی رشوت سفارش،ضابطے کی بے ضابطگیاں،یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا اور جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ یہ شعبہ میری طبیعت سے مطابقت نہیں رکھتا۔


سوال۔قانون کی اکیڈیمک تعلیم کے علاوہ آپ کس مضمون میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
جواب۔اردو ادب اور خاص طور پر شاعری میں شروع سے دلچسپی تھی جو آج تک نہ صرف بر قرار ہے بلکہ پہلے سے زیادہ ہے۔زمانہ طالبعلمی میں میں نے فراز،منیر نیازی،فیض،ناصر کاظمی، مصطفے زیدی کے ساتھ ساتھ کئی دیگر شعراء کا کلام پڑھتا رہتا۔دوران تعلیم ایم۔اے اردو اور ایم۔اے اسلامیات کے سلیبس کی تمام کتب اپنے کمرے میں رکھیں ہوئی تھیں جنکا گاہے بگاہے مطالعہ کرتا۔اسلامیات کے ساتھ اسلامی تاریخ بھی میرا پسندیدہ مضمون تھا۔
سوال۔کب ادراک ہوا کہ آپکے اندر ایک خوبصورت شاعر موجود ہے۔
ہر وہ شخص جو احساس کی دولت اور مشاہدہ کی طاقت رکھتا ہے۔تجربات و مشاہدات کو جذب کر کے سوچ و بچار کرتا ہے کسی کا دکھ درد دیکھ کر کرکے تکلیف محسوس کرتا اوراور مضطرب ہوجاتاہے اور ان تمام چیزوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات کو لفظوں کا پیرہن عطاکر کے زینتِ قرطاس بنانا چاہتا ہے۔تو یہی امر اسکی شاعرانہ طبیعت پر دلالت کرتا ہے۔اور یہی چیز اس کے اندر چھپے ہوئے شاعر کا پتہ دیتی ہے۔وہ اس کا اظہار بحور اور ردیف قافیہ کی قیود میں کرے یا ان سے آزاد ہو کر۔اسکے اندر ایک شاعر ہوتا ہے۔کچھ ایسی ہی کیفیت بچپن سے تھی۔ان احساسات کو جب قلم کی طاقت نصیب ہوئی تو یہ مصروع،شعروں غزلوں اور نظموں کی صورت سامنے آئے۔
سوال۔کیا آپ زیادہ تر غزل میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں یا نظم میں اورشاعری میں مختلف اصناف کے بارے میں کیا خیال ہے
جواب۔جذبات کی آزادانہ اور فطری ترسیل نظم میں زیادہ بہتر ہوتی ہے اور پھر آزاد نظم میں تو اظہار زیادہ آسان اور واضح ہو جاتا ہے۔اظہار پابندِ ردیف قافیہ نہیں ہوتا دل کے بحرِ بیکراں سے اُٹھنے والے غبارات غم کے سیاہ بادل کی شکل اختیار کرتے ہیں تو گرج چمک کے ساتھ کھُل کر برستے ہیں۔یہاں تک کہ مطلع صاف ہو جاتا ہے یہی نہیں بلکہ آسمان ِ تخیل پر سوچ کی قوس قزح رنگ و نور کا منظر پیش کرتی ہے۔
ادھر غزل جو شاعری کے ماتھے کا جھومر اور اردو ادب کا حسن ہے جسکا ایک ایک شعر دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے اور پھر شاعر کا کام ہے کہ اس دریا میں تلاطم خیزیاں پیدا کر دیتا ہے۔جو شاعرکے جذبات کے ساتھ ساتھ اس کے فن کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ غزل تمام تر پابندیوں کے باوجود شعراء کی اکثریت کو مرغوب ہے۔جہاں تک دیگر اصناف، شاعری کا تعلق ہے تو ان اصناف ِ بھی شعراء نے لکھا ہے اور انہیں پذیرائی بھی ملی۔
سوال۔آپ زیادہ تر غزل کہتے ہیں یا نظم
جواب۔میرا رجحان غزل کی طرف ہے۔اگرچہ مجھے کافی نظمیں بھی عطا ہوئیں۔میری ایک طویل نظم ”میری ساری دعائیں ہیں تیرےلیے“ ایک سو ستر مصرعوں پر مشتمل ہے جو قدرت کی خاص عنایت ہے۔ نظموں کی ایک علیحدہ کتاب شائع کرنے کا ارادہ ہے۔
سوال۔شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھتے ہیں۔
جواب۔بنیادی طور پر شاعری ہی میرا مطمئہ نظر رہا۔نثر بھی لکھتا ہوں۔مختلف سیمیناز اور کانفرنسسز میں مقالے بھی پڑھے جو نہ صرف نثر پارے ہیں بلکہ موضوعاتی وسعت بھی رکھتے ہیں ۔متعدد کتابوں پر مضامین اور آراء لکھیں…
سوال۔ کچھ یاد ہے پہلا شعر کب لکھا اور کیا لکھا
جواب۔پہلا شعر تو یاد نہیں اتنا یاد ہے کہ میٹرک /فرسٹ ایئرکے زمانے میں شعر لکھنے شروع کیے۔کاغذوں اور ڈائریوں پر محفوظ بھی کئے۔وہ کیا تھا۔کچھ یاد نہیں۔البتہ پہلی معلوم اورمحفوظ غزل وہ ہے جو میں نے فیصل آباد کے ایک بین الکلیاتی مشاعرے میں پڑھی۔غالب ؔ کی زمین پر ”یا الہی یہ ماجرا کیا ہے“جو میرے پہلے مجموعہ ئکلام کی زینت ہے۔اور اسی مشاعرے میں نظم بعنوان”زندگی“میری پہلی محفوظ نظم ہے۔
سوال۔ ادب کے حوالے سے آپ کے گھر کا ماحول کیسا تھا
جواب۔بنیادی طور پر ہمارے گھر کاماحول علمی اور مذہبی تھا۔البتہ والدہ صاحبہ کو بہت سے اشعار زبانی یاد تھے۔وہ اپنی گفتگو میں بر محل اشعار کو شامل بھی کر لیتی تھیں۔انہیں بیت بازی کا شوق تھا۔جب میں نے بولنا سیکھا تو امی نے اشعار بھی یاد کروانے شروع کئے۔پھر ہمارے ساتھ اکثر بیت بازی کرتیں۔یہیں سے شوق کا آغاز ہوا۔جو بتدریج ترقی کی منازل تہہ کرتا چلا گیا۔
سوال۔آپ نے بتایا کہ آپ 1987 میں جرمنی چلے گئے وہاں ادبی ماحول اور ادبی سرگرمیوں کی کیا صورتحال تھی۔
جواب۔جب میں یہاں آیا تو میرا قیام فرینکفرٹ شہر سے 60کلو میٹر دور ایک شہر میں تھا۔اس شہر میں میں پہلا پاکستانی تھا۔فرینکفرٹ میں بھی کم پاکستانی تھے۔ادبی ماحول میسر نہ تھا۔بلکہ پاکستان سے آنے والے اکثر احباب فکرِ معاش اور اپنے اپنے مسائل میں گھرے تھے۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ فرینکفرٹ میں ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم ہے۔اسی طرح برلن جو فرینکفرٹ سے 500کلو میٹر کے فاصلے پر ہے،وہاں علمی ادبی اور ثقافتی تنظیمیں ہیں،لیکن اس زمانے میں روابط اتنے آسان نہ تھے جتنے آج ہیں۔1995 میں معلوم ہوا کہ محترمہ ثریا شہاب (جو اس وقت جرمنی میں مقیم تھیں) اور سید اقبال حیدر نے مل کر فرینکفرٹ میں ایک خالصتاََادبی تنظیم ”حلقہ ادب فرینکفرٹ“کی بنیاد رکھی ہے تو یہ خبر خوش کن تھی۔1999میں فرینکفرٹ شفٹ ہوا تو اس تنظیم کی ماہانہ ادبی نشست میں شمولیت کی۔ اور اس تنظیم سے وابسطہ ہو گیا۔پھر 2002 میں چند دوستوں کے ساتھ ملکر ”فن و ادب ایسوسی یشن“کی بنیاد رکھی۔جس کا ایک عرصہ تک ماہانہ اجلاس ہوتا رہا ۔بالآخر میں نے شریف اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔
سوال۔شریف اکیڈمی جرمنی کے اغراض ومقاصد اور اس کے بارے مزید کچھ بتائیں
جواب۔شریف اکیڈمی کی بنیاد29 مارچ 2009کونیک نیتی،خلوص دل اور خلائق عامہ کی بہبود کے جذبے کے تحت رکھی گئی۔اسکا مقصد فروغ علم و ادب ہے خواہ وہ کسی طریقہ سے۔اس کا کینوس وسیع ہے اس مقصد کے لیے ہر وہ طریقہ اپنایا جاسکتا ہے جس سے علم پھیلے اور لوگوں میں علم و ادب کی اہمیت اجاگر ہو۔ بین الاقوامی سطح پر اہلِ قلم کے روابط مضبوط ہوں اور تخلیق ہونے والے علم سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں۔ممبران کا آپس میں رابطہ ہو،تا کہ ٹھوس بنیادوں پر کام ہو سکے۔کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں رہنمائی کی جائے،اور جہاں ممکن ہو مالی معاونت بھی کی جائے۔اور پھر ان کتابوں کو مختلف ممالک میں بھجوایا جائے تا کہ پاکستان کے ایک گاؤں میں رہنے والے شاعر کی کتاب عالمی سطح پر متعارف ہو سکے۔مشاعرے،علمی ادبی نشستیں،سیمینار،مذاکرے اور کانفرنسسز کا انعقاد بھی اکیڈمی کے لائحہ عمل میں شامل ہے۔کتابوں پر ایوارڈ اور علم و ادب کی خدمت پر توصیفی القاب واسناد،پوزیشن ہولڈر طلباء کو ایواڈ دئے جائیں تاکہ نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی ہو بلکہ طلباء میں محنت کرنے کا شوق دوبالا ہو۔

سوال۔اس تنظیم کے مختلف ممالک میں بھی نمائندے ہیں اور پاکستان میں بھی۔اس کا کیا طریقہ کا ر ہے اس کی وضاحت کریں۔
جواب۔اکیڈمی کے تنظیمی ڈھانچے کے مطابق پاکستان کے ہر ضلع میں اکیڈمی کا سیٹ اپ ہو گا۔جو کوآرڈینیٹرز۔ڈائریکٹر ضلع،ڈائریکٹر میڈیا اورڈائریکٹر آئی ٹی پرمشتمل ہو گا۔اور اکیڈمی کے ممبرز ہونگے
اسی طرح دنیا کے ہر ملک میں ملکی سطح اسی طرح کی ایک ورکنگ باڈی ہو گی۔
سوال۔اس وقت دنیا کے کتنے ممالک میں اور پاکستان کتنے اضلاع میں اکیڈمی کے آفس قائم ہو چکے ہیں۔
جواب۔پاکستان کے تقریبا بیس اضلاع میں اور دنیا کے تقریبا پندرہ مالک میں اکیڈمی کے نمائندے جو ڈائریکٹرز کہلاتے ہیں۔فروغ علم و ادب کے لیے کام کر رہے ہیں۔
سوال۔اکیڈمی کی ممبر شپ حاصل کرنے کا کیا طریقہ کا رہے۔
جواب۔اکیڈمی کا ممبر شپ فارم ہے جو پُر کر کے ہیڈ آفس کو ارسال کیا جائے۔بذریعہ ای۔ میل اور پھر اکیڈمی کا بورڈ آف ڈائریکٹر فیصلہ کرکے آنر آف ممبر شپ کا لیٹر جاری کرتا ہے۔ممبر شپ کی کوئی فیس نہیں۔
سوال۔شریف اکیڈمی اپنے مقاصد میں کس قدر کامیاب ہوئی
جواب۔اکیڈمی کی بنیاد رکھنے کے بعد جس قدر میرے مقاصد کو پذیرائی ملی اور ذوق و شوق سے لوگ اس میں شامل ہوئے تو میں نے محسوس کیا کہ ہماری قوم کو علم کی تشنگی ہے۔انہیں کم از کم یہ معلوم ہے کہ حصول علم کس قدر ضروری ہے۔مجھے اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی جو میرے لیے باعث اطمینان ہے۔لیکن بقول اقبال
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
سوال۔ادبی گروہ بندیوں کے بارے میں آپ کی رائے۔
جواب۔کسی بھی شعبہ زندگی میں اورکسی معاشرے میں گروہ بندیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔گروہ کا قیام یعنی تنظیموں کا قیام تو کار خیرہے جوسب کے لیے نفع بخش عمل ہے۔لیکن گروہ کے اندر لوگوں کو بند کر کے ان کی سوچ کو محدود کرنا اور دوسری تنظیموں کو نیچا دکھانا گروہ بندی ہے۔جو کسی بھی معاشرے کے لئے آکاس بیل ہے۔علم و ادب کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ہر تنظیم قابلِ احترام ہے۔بلکہ ان تنظیموں کو آپس میں معاون و مددگار ہونا چایئے۔کیونکہ سب کے مقاصد ایک ہے اور منزل بھی ایک ہے۔میں نے اکثر اپنی تقاریر میں بھی کہا ہے کہ شریف اکیڈمی جہاں ایک تنظیم ہے وہاں ایک تحریک بھی ہے۔ اگر کوئی شخص شریف اکیڈمی کے پلیٹ فارم پراپنی خدمات سرانجام نہیں دینا چاہتا تو کسی اور تنظیم کے ساتھ منسلک ہو کرعلم و ادب کی خدمت کرے اور اگر وہ کسی بھی تنظیم سے مطمئن نہیں تو وہ خود علم و ادب کے لیے کچھ کر ے۔اگر کوئی شخص خود پڑھا لکھا نہیں۔وہ علم و ادب کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو اسے تحریک دی جائے کہ وہ کم از کم اپنے بچوں کوتعلیم دلائے۔اسی طرح وہ کم پڑھی لکھی ماں جو اپنے بچے کو اردو کا قاعدہ پڑھاتی ہے وہ فروغِ علم کا کام کر رہی ہے ہم ایسی ماں کی عظمت کو بھی سلام کرتے ہیں۔ ہمیں بڑی سطح پر بھی اور چھوٹی سطح پر بھی اس تحریک کو عام کرنا ہے۔
اگر پاکستان کا ہر شہری یہ تہیہ کر لے کہ اس نے اپنے بچوں کو تعلیم دلانی ہے تو بیس سال کے قلیل عرصہ میں شرح خواندگی سو فیصد ہو جائے گی۔تو ہر گھر علم کے نور سے منور نظر آئے گا۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم گروہ بندیوں کے تعصب سے آزاد ہو کر قومی اور اجتماعی مفا دکا سوچیں اور اس کو ترجیح دیں۔


سوال۔موجوہ ادبی تناؤ کے کیا اسباب ہیں۔
موجودہ ادبی تناؤ کے وہی اسباب ہیں جو انسانی فطرت کے منفی اوصاف ہیں۔یعنی بغض و حسد،انا، کینہ پروری۔بد قسمتی سے ہم ان منفی خواص کے خلاف جنگ نہیں کرتے بلکہ احساسِ زیاں نہ ہونے کے سبب اپنی ان چیزوں پر اِتراتے ہیں۔حالانکہ ہمارے اندر باہمی اخوت،محبت،ہمدردی اورخدمت کے اوصاف بھی موجود ہیں جنہیں ابھار کر منفی اوصاف پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اور ادبی تناؤ توکیا،معاشرتی تناؤ بلکہ ہر شعبے میں تناؤختم ہو سکتا ہے۔لیکن جب معاشرے کی اکثریت اپنے منفی اوصاف کو بروئے کار لائے گی تو ملک، قوم اور معاشرہ تنزل کی راہوں پر چلتا ہوا ظلمتوں کی آتھا گہرائیوں گرتا چلا جائے گا۔اور ہماری ترقی ممکن نہیں۔
سوال۔آپکے نزدیک آج کے دورکابڑاشاعر کون ہے۔
جواب۔اس بات کا فیصلہ تاریخ کرے گی کہ آج کے دور کا بڑا شاعر کون تھا۔تاہم جب ہم آج کی بات کرتے ہیں تو میرے نزدیک چھوٹے بڑے کی تخصیص مناسب نہیں۔ہر شاعر خون جگر سے شعر کشید کرتا ہے۔اور میدان سخن میں اپنی توانائیاں صرف کرتا ہے۔اس لئے ہر شاعر قابلِ احترام ہے۔ہم عرف عام میں جس کو چھوٹا شاعر یا نو آموز شاعر کہتے ہیں نجانے اسکو ایک شعر کہنے میں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔۔اس لیے نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیا معلوم کہ کہاں لعل چھُپاہو۔
سوال۔فروغ اردو اور اردو ادب میں میڈیا کیا کردار ادا کر رہا ہے۔
جواب۔میڈیا کا کردار جو ہونا چاہیے وہ کردار قطعا َادا نہیں کر رہا۔بلکہ میڈیا کی پرائیوٹایزیشن اور کمرشلزم کے بعد میڈیا کا اس سلسلے میں منفی کردار سامنے آیا ہے یہاں اپنے کاروبار کو چمکانے کے لیے ایسے ڈارمے اورپروگرام پیش کیے جاتے ہیں جن میں جان بوجھ کر اردو کے الفاظ اور فقرات غلط بولے جاتے ہیں۔جو اردو کشی کے مترادف ہے۔پھر ادبی پروگراموں کو بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ایک وقت تھا کہ خبریں اس لئے بھی سُنی جاتی تھیں کہ اردو کا صحیح تلفظ سننے کو ملتا ہے۔اور یہ کسی لفظ کی ادائیگی کی کسوٹی ہوتی تھی۔لیکن حیف در حیف کہ آج خبر یں پڑھنے والے کا بھی تلفظ درست نہیں اور بعض میزبان پروگرام بھی صحیح اردو نہیں بولتے۔جو کہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔
سوال۔کتاب اور قاری کے درمیان خلیج حائل ہو رہی ہے۔
کتاب اور قاری کے درمیان خلیج بدلتے ہوئے تقاضوں اور جدید ٹیکنالوجی کا جزو لازم ہے۔لیکن میرے نزدیک کتاب سے مراد علم و ادب دینے والی چیز اور قاری سے مراد علم حاصل کرنے والا شخص ہے۔اگر گاؤں کی چوپال میں بیٹھا ایک شخص علم و حکمت کی باتیں لوگوں کو بتاتا ہے اور لوگ ان باتوں کو سننے بصد شوق وہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔تو وہ شخص کتاب کا کردار ادا کر رہا ہے۔جبکہ سامع،قاری کا کردار ادا کر رہا ہے۔پھر جب لوگوں نے خود پڑھنا سیکھا تو کتاب سے علم حاصل کیا اب جدید ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر کتاب کا کردار ادا کر رہا ہے۔اور علم حاصل کرنے والا قاری کا۔تو یہ صورتحال مایوس کن نہیں بلکہ خوش آئیند ہے۔حصول علم کے راستے آسان ہو گئے۔کتاب اور قاری کے درمیان خلیج نہیں بلکہ کمپیوٹر نے رکاوٹیں دور کر دی ہیں۔آج نایاب کتابیں بھی کمپوٹر میں موجود ہیں۔جو دعوت مطالعہ دے رہی ہیں۔
سوال۔ادب میں نئے تجربات کے کس حد تک قایل ہیں۔
ادب کا میدان ہو یا کوئی بھی شعبہئ زندگی ہو اس میں نئے تجربات ہو نے ضروری ہیں۔یہ ذہنی ارتقاء کا قدرتی نتیجہ ہے۔لیکن اگرشاعری کو غزل یا مسدس نما نظم تک محدود رکھا جائے تو ذہنی ارتقا رک جائے گا۔لیکن انسانی سوچ کے پرواز،ارتقاء اور نئی چیزوں اور نئی دنیا کی تلاش انسانی نفسیات کے فطری تقاضے ہیں۔دریا میں طغیانی آتی ہے تو پانی خود راستہ بناتا ہے۔لہذا یہ امر قدرتی اور فطری ہے۔ہاں البتہ اگر نئی صنف میں دم خم ہو گا تو وہ اپنی جگہ بنا لے گی۔بہر حال نئے تجربات، ارتقائی عمل کا جزو لازم ہیں۔
سوال۔۔جرمنی میں اردو کا مستقبل کیا ہے
جس زبان کا مستقبل اُس ملک میں تابناک نظر نہیں آتا جس کی قومی زبان اردو ہے۔تو جرمنی جیسے ملک اور اسی طرح دیگر یورپین ممالک بشمول کینیڈا اور امریکہ میں اس کے بارے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔جن ممالک کی اپنی زبانیں ہیں۔یہاں نہ اردو بولنے،پڑھنے یا لکھنے کی کوئی معاشی ضرورت ہے نہ معاشرتی نہ ہی سماجی۔ تو اس کے باوجود یہاں محبان اردو،اردو زبان وا دب کی تنظیمیں بنا کر فروغ اردو میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہ خدمت ہی نہیں بلکہ قربانی ہے اگر وہ اتنی ہی محنت مقامی زبانوں کوحاصل کرنے ان پر عبور حاصل کرنے میں کریں تو انکو معاشرتی اور معاشی سطح پر بھی فائدہ ہے۔لیکن اسکے باوجود اردو کے لئے کام کرنا۔اردو کی عظیم خدمت ہے۔ادھر افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔کہ پاکستان میں لوگ اپنی علاقائی اور صوبائی زبانوں کو فروغ دینے اورسکولوں میں رائج کرانے کی تحریکیں چلاتے ہیں۔ادھر ایک طبقہ بچوں کو انگریزی زبان میں ماہر کرنا چاہتاہے۔سرکاری اداروں میں لوگ انگریزی میں بات کر کے ایک دوسرے کو مرعوب کرتے ہیں۔تو اس وقت پاکستان میں بقائے اردو پر کام ہوناچاہیے۔پاکستان سے باہر رہنے والے تو نہ صرف ملک کا درد زیادہ رکھتے ہیں بلکہ حب الوطنی میں بھی پاکستا ن میں رہنے والوں سے سبقت رکھتے ہیں۔اور اردو زبان کو اپنی نسلوں میں رائج ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

شفیق مراد جرمنی

Facebook
Twitter
WhatsApp