دنیائے بے ثبات سے آگے نکل گئے
خوش ہیں غمِ حیات سے آگے نکل گئے
وہ جذب ہو چکے ہیں ہماری ہی ذات میں
وہ اب تعلقات سے آگے نکل گئے
دل کی ہر ایک بات کا رکھتے ہیں دل سدا
دل کی ہر ایک بات سے آگے نکل گئے
کچھ ابتدائے عشق تھی کچھ انتہائے شوق
ہم ساری ممکنات سے آگے نکل گئے
یوں مہربان ہم پہ مقدر ہوا کہ ہم
اپنی توقعات سے آگے نکل گئے
آواز دیتے رہ گئے جگنو ستارے چاند
انؔور حسین رات سے آگے نکل گئے
انور ضیا مشتاق