Dunya Tri rawani Main Insan Beh Gaya
غزل
دنیا تری روانی میں انسان بہہ گیا
یعنی کہ گھونٹ پانی میں نادان بہہ گیا
اسکی رفاقتوں کی ضرورت مجھے بھی تھی
دلبر جو رکھ رکھاؤ میں سامان بہہ گیا
جو بچہ گم شدہ تھا لگا ماں کے جب گلے
جذبات تیرے رنگوں کا طوفان بہہ گیا
جو دے رہا تھا بیچ بھنور مجھ کو قوتیں
وہ میرا حوصلہ سرِ میدان بہہ گیا
پر کھوں کی لاج کا نہیں ہے پاس اب اسے
تہذیب نو کی رو میں مسلمان بہہ گیا
کب مانتا تھا بات تو میرے دماغ کی
دلبر کے ہاتھ دل کا تبھی مان بہہ گیا
صد شکر آنسوؤں کی روانی میں معتبر
دشتِ یقیں میں روح کا وجدان بہہ گیا
شہناز انجم
Shahnaz Anjum