دنیا ترے تماشے سے بزار کون ہے
سب دیکھنے میں محو ہیں بے کار کون ہے
سب کچھ بدل چکا ہے زماں بھی مکان بھی
بدلا نہیں جو اب بھی وہ کردار کون ہے
اب میکدے میں جا کے ہمیں دیکھنا ہے یہ
جو پی رہے ہیں ان میں طرح دار کون ہے
سب جانتے ہیں شہر میں اس واردات کو
جس کو خبر نہیں وہ قلم کار کون ہے
اس درجہ ہو گئی ہے رویوں میں مصلحت
تحقیق کر رہا ہوں کہ غم خوار کون ہے
دل کی صدا پہ بزم میں کہہ تو دیا ہے سچ
اب دیکھنا ہے میرا طرف دار کون ہے
سلمان صدیقی