دنیا تو دے رہی تھی تن آسانیاں بہت
ہم کیا کریں کہ ہم میں تھیں خودداریاں بہت
ہوگا مزے میں چاہے کہیں بھی تُو جا بَسے
اے یار تجھ کو آتی ہیں مکاریاں بہت
سرخی لگا کے تم کو نہیں آنا چاہیے
گھر جا کے مجھ کو ہوتی ہیں دشواریاں بہت
ریشِ دراز، گوشہ نشیں اور سیہ لباس
فرقت میں لازمی ہیں یہ غمخواریاں بہت
دھوکا، دغا، فریب، محبت، وفا، خلوص
دلکش ہیں دوستوں کی اداکاریاں بہت
مولا کرے گا خیر یہ ڈھولک یہ قمقمے
ہیں اُس گلی میں کس لیے تیاریاں بہت
چھوڑو بھی یار آج محبت کا غم نہیں
دنیا میں اور بھی ہیں پریشانیاں بہت
میں نے رضا بڑوں کو سنائی تھی آرزو
ہوتی ہیں اس خطا پہ پشیمانیاں بہت
محمد رضا حیدری