Dunya ka aitbaar bhi mayya Dikaai Day
غزل
دنیا کا اعتبار بھی مایا دکھائی دے
اپنا وجود دھوپ میں سایا دکھائی دے
شیشے میں اپنا چہرہ بھی اب اجنبی لگے
دل پر کسی کی سوچ کا پہرہ دکھائی دے
کہتے ہیں جس کو اشکِ پریشاں ستم ظریف
ہم کو تو بہتے خون کا دریا دکھائی دے
کیسے یقین ہو کہ بہار آئے گی کبھی
حدِ نگاہ جب ہمیں صحرا دکھائی دے
جب بجھ گئی ہو روشنی دل اور دماغ کی
اس تیرگی میں پھر کہاں رستہ دکھائی دے
انسان بٹ چکا ہے کئی سرحدوں میں آج
اب وہ نہ اس جہان میں بستا دکھائی دے
گزرا ہے کوئی سانحہ ایسا ہر اک کے ساتھ
کوئی بھی اب نہ روتا نہ ہنستا دکھائی دے
دیوار تک رہی ہیں یہ آنکھیں بس ایک ٹک
فکر و نظر پہ طاری یہ سکتہ دکھائی دے
اوروں کے غم کو اپنا سمجھنا ہے اصل وصف
کوئی تو اس مقام پہ پہنچا دکھائی دے
صدیوں سے اک خمار مسلط ہے اس طرح
کوئی نہ ایک ہوش میں آتا دکھائی دے
اچھے بروں کی بھیڑ میں ہر ایک ذی نفس
حشامِ سادہ دل کو تو اچھا دکھائی دے
حشام سید
Hasham Syed