دن رات ڈھل رہے ہیں، لمحات ٹل رہے ہیں
دھیرے سے زندگی کے صفحات جل رہے ہیں
ہر سو تمہاری صورت، ہر سو صدا تمہاری
کمرہ نہیں یہ میرا، جنات پل رہے ہیں
دیکھو تو یہ وہی ہیں، دشمن ہماری جاں کے
جو دوستوں کی صف میں حضرات کل رہے ہیں
نہ گفتگو کسی سے، نہ قہقہے، نہ خوشیاں
ہم چل رہے ہیں جیسے، حالات چل رہے ہیں
اپنے لہو سے میں نے ایسے دیے جلائے
ایسے دیے جو وقتِ برسات جل رہے ہیں
چھوڑو یہ سب دلاسے، جاؤ یہاں سے جاؤ
اِس بےخودی کے اکثر، آفات حَل رہے ہیں
محمد رضا حیدری