Din Hay Apna no Raat Hay Apni
غزل
دن ہے اپنا نہ رات ہے اپنی
کس مصیبت میں ذات ہے اپنی
آپ نے کیا کبھی یہ سوچا ہے
کیوں سسکتی حیات ہے اپنی
ظلم کے آگے سر اٹھانے کی
بزدلو! کیا بساط ہے اپنی
تن پہ کپڑا نہ پیٹ میں روٹی
پھر بھی اونچی یہ ذات ہے اپنی
حق بیانی سے لوگ ڈرتے ہیں
کیسی یہ کائنات ہے اپنی
سارا کا سارا شہر گونگا ہے
سچ کہوں تو یہ مات ہے اپنی
شازیہ دور ہے قیامت کا
زندگی بے ثبات ہے اپنی
شازیہ طارق
Shazia Tariq