غزل
دونوں آنکھوں میں بھر لیا جائے
حسن محفوظ کر لیا جائے
زندگی سے کلام کرنے کو
اذن نور سحر لیا جائے
ہم سے پاداش میں محبت کی
جان لی جائے سر لیا جائے
بے خطا ہے تو پھر بھی ڈر اے دوست
بے خطا ہی نہ دھر لیا جائے
شہر امید کتنا دل کش ہے
آؤ کچھ دن ٹھہر لیا جائے
کیسا سرسبز ہے تمہارا ساتھ
اس کو تصویر کر لیا جائے
افتخار حیدر