دِل سے کہہ دو کہ ڈر نہ جائے کہیں
خوشبوؤں سا بکھر نہ جائے کہیں
دیکھ ! میں تجھ میں جی رہا ہوں بہت
دیکھ ! تُو مجھ میں مر نہ جائے کہیں
مُشکلوں سے جسے بگاڑا ہے
خوف ہے وُہ سُدھر نہ جائے کہیں
تونے دِل کو بَھرا ہے زخموں سے
دل ہی اب تجھ سے بھر نہ جائے کہیں
آنے جانے سے یہ کُھلا ہم پر
آدمی سر بسر نہ جائے کہیں
اُس نے وعدہ کِیا ہے ڈرتے ہوئے
ڈر رہا ہوں مُکر نہ جائے کہیں
لاکھ شہباز کھڑکیاں کھولے
کھول کر دِل کا در ، نہ جائے کہیں ۔۔۔
شہباز نیر