دِن اب تھوڑے بچے ہیں تیرگی کے
قدم اب چل پڑے ہیں روشنی کے
شناسا بن گیا وہ دٙو گھڑی میں
عٙجب انداز تھے اُس اجنبی کے
ہوئ جب گفتگو اُس سے تو گویا
بکھیرے سُر کسی نے بٙانسری کے
جُھکا کر جب اُٹھائ اُس نے نظریں
چلے ہیں دٙور کتنے مٙے کٙشی کے
گریباں چاک ، وہ بھی اُس گلی میں
ذٙرا آداب سیکھو ، عاشقی کے
عجب اُس کا تھا اٙنداز ِ سیاست
کہ دعوے رٙہ گئے سب دوستی کے
گیا وہ اعتبار ِ دوستاں بھی
کئ چہرے ہیں ہر اِک آدمی کے
مسیحائ بھی کیا کرتی کِسی کی
تھے گہرے زخم ہی کچھ آگہی کے
مِلی جب فُرقتوں کی دُھوپ ، یُونس
تو نِکھرے رنگ ۔۔۔۔۔ میری شاعری کے
یونس عظیم