غزل
دھرتی بھی سینہ زن ہے کہ سچائی چھین لی
بارش کی جل ترنگ نے تنہائی چھین لی
نا بینا بیچتا ہے بصارت کو راہ میں
گونگے نے جب سے نطق پذیرائی چھین لی
ہم لوگ بھوک پیاس کی شدت نہ سہہ سکے
فاقوں نے ہم سے قوت گویائی چھین لی
یہ کس نے چاندنی کو سمیٹا ہے آنکھ میں
یہ کس نے سارے شہر کی بینائی چھین لی
میں گم تھا اپنے آپ میں اندرون خانہ قید
لیکن کسی کی یاد نے گہرائی چھین چھین لی
پانی پہ تیرتا رہا رنگوں کا رقص بھی
آب شفا تو مل گیا زیبائی چھین لی
اب کے مجھے ملا ہے محبت میں ایسا دکھ
چہرے سے جس نے دل کشی رعنائی چھین لی
اترا ہے ایسے آنکھ میں طاہرؔ یہ رتجگا
دلدل کو روند ڈالا گیا کائی چھین لی
طاہر حنفی