دھمال کرتے ہوۓ اور ہاوہو کرتے
گزر رہے ہیں ترا زکر کو بہ کو کرتے
زرا سی دھوپ کی خواہش میں ہم ٹھہر جاتے
جمالِ عشق کے سائے سے گفتگو کرتے
وہ سرخ دھاگے کی الجھن بڑھانے لگتی ہے
ہم اپنے دکھ کی یہ لیریں کہاں رفو کرتے
عجب سرور ہے تازہ رکھا ہوا جس کو
ہماری عمر کٹی تیری جستجو کرتے
ہمارا ظرف ہماری طلب پہ بھاری تھا
یہ آرزو ہی رہی جرمِ آرزو کرتے
وہ مجھ سے آنکھ ملاتے کبھی سرِ محفل
کبھی تو عشق زمانے کے روبرو کرتے
یہ میرا شعر یہ میری غزل ہے عطر بشؔر
زرا سی دیر لگی عمر مشکبو کرتے
مبشر سلیم بشؔر