دھڑکن کے زیر و بم کو سنوارا تھا اور بس
کاغذ پہ دل کا بوجھ اُتارا تھا اور بس
بس اتنا جانتا ہُوں کہ آواز اُس کی تھی
اتنا پتہ ہے ، اُس نے پکارا تھا اور بس
کارِ جہاں میں فائدہ کچھ ہو تو ہو مگر
کارِ جنوں میں صرف خسارا تھا اور بس
دُنیا کی فکر کیا تھی زمانے کا خوف کیا
ہم کو فقط خیال تمہارا تھا اور بس
لوگوں نے جس کو میری محبت سمجھ لیا
راجا وہ مجھ کو جان سے پیارا تھا اور بس
احمد رضا راجا