غزل
دھیان میں لاتے ہیں یوں بھی تری باتوں کے چراغ
دیکھنا چاہتے ہیں ہم تری راتوں کے چراغ
عام سی شب کو شب خاص بنا دیتے ہیں
اک تری یاد میں جلتی ہوئی آنکھوں کے چراغ
شہر یاراں میں کہیں کوئی شناسا ہی نہیں
نہ وہ برگد نہ قبیلہ نہ رواجوں کے چراغ
آج بھی یار برستی ہیں کسی کی آنکھیں
آج بھی کوئی جلاتا ہے مرادوں کے چراغ
خوش نصیبی سے ہم اک طاق میں روشن ہیں یہاں
کم ہی ملتے ہیں وگرنہ یہ مزاجوں کے چراغ
ندیم ناجد