دہن میں وقت کے ڈالی زبانِ ارتقاء میں نے.
خموشی کو سماعت دی سماعت کو صدا میں نے.
سند تحریر کو میری اْسی دم مل گئ جب کہ.
خدا کو عشق لکّھا اور محبّت کو خدا میں نے.
نہیں واعظ سے کوئ واسطہ نہ شیخ و زاہد سے.
خِرد کو چھوڑ کر کی ہے جنوں کی اِقتداء میں نے.
تھا شوقِ دیدِ حسنِ یار کا کچھ اضطراب ایسا.
کہ دھڑکن اور تصوّر کو مْجسّم کر لیا میں نے.
ہوا آزاد ہوں قیدِ مقام و وقت سے جب بھی.
مکان و لامکاں کا طئے کیا ہے فاصلہ میں نے.
حسابِ دوستاں در دل کا قائل ہوں اسی خاطر.
جفائیں جتنی کیں تم نے حساب ان کا رکھا میں نے.
سجائے داغ ہائے درد پھولوں کی طرح راشد.
انہیں پھر خونِ دل دیکر گْلِستاں کر لیا میں نے.
راشد حسین راشد