loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

17/04/2025 21:48

دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے

دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے
خود اپنے تحفظ کی وہ جڑ کاٹ رہا ہے

بے سمت اڑانوں سے پشیماں پرندہ
اب اپنی ہی منقار سے پر کاٹ رہا ہے

محبوس ہوں غاروں میں مگر آذر تخیئل
چٹانوں میں اشکال ہنر کاٹ رہا ہے

اک ضرب مسلسل ہے کہ رکتی ہی نہیں ہے
ہر تار نفس درد جگر کاٹ رہا ہے

ہے کون کمیں گاہ میں یہ کیسے بتاؤں
ہر تیر مگر میرے ہی پر کاٹ رہا ہے

امید اجالے کا لیے تیشہ ہر اک دل
ہر رات بہ انداز سحر کاٹ رہا ہے

کرتا ہے فزوں وحشت دل دشت کا موسم
بلقیسؔ مگر کیا کروں گھر کاٹ رہا ہے

بلقیس ظفیر الحسن

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم