غزل
دیجے نہ داد شوخ بیانی کو دیکھ کر
تعریف کیجے مصرعِ ثانی کو دیکھ کر
نعمت ملی تھی سہنے کی طاقت سے ماورا
صحرا نشین مر گئے پانی کو دیکھ کر
ماتھے پہ ثبت بوسہ نمودار ہوگیا
رسنے لگے ہیں زخم ، نشانی کو دیکھ کر
پہلے بھی اشک بار تھیں آنکھیں مری مگر
حیران ہوں میں اب کہ روانی کو دیکھ کر
بحثیں چھڑی تھیں صلح کی اور دونوں بادشاہ
بیٹھے بٹھائے لڑ پڑے رانی کو دیکھ کر
میں چپ رہی ، پرندوں نے محشر بپا کیا
یکدم تمہاری نقل مکانی کو دیکھ کر
بیٹھے ہوئے تھے تاک میں جوگی چھپے ہوئے
آئے تھے سانپ رات کی رانی کو دیکھ کر
لگتا ہے جیسے میر کی جاگیر لٹ گئی
جدت کے دھن میں لغو بیانی کو دیکھ کر
کرن منتہیٰ