غزل
دیکھا ہے گلستاں ہی بیاباں نہیں دیکھا
لیکن کبھی یہ رنگِ گلستاں نہیں دیکھا
بیوانوں کو کب بے سرو ساماں نہیں دیکھا
دامن کبھی دیکھا تو گریباں نہیں دیکھا
ہر پھول ہوا جاتا ہے کیوں جامہ سے باہر
تم نے تو کہیں سوئے گلستاں نہیں دیکھا
دیکھا نہ کبھی اپنی پریشانی کا حاصل
جب تک تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
گستاخیاں کرتی ہی رہی کچھ نگہ شوق
جب تک تری نظروں کو پشیماں نہیں دیکھا
واعظ کی ہر اک بات کو پی جاتا ہے ساقی
ایسا تو فرشتوں نے بھی انساں نہیں دیکھا
دب کر نہ رہا عیش کسی اہلِ سخن سے
کب اس کو سرِ بزم حریفاں نہیں دیکھا
عیش ٹونکی