دیکھوں تو پانیوں سے بھی گہرا دکھائی دے
سوچوں تو اس میں وسعتِ صحرا دکھائی دے
پھولوں کی طرح اس کا سراپا دکھائی دے
ٹہرے اگر تو وقت ٹہرتا دکھائی دے
ان آٸینوں میں ایسا بھی اک آئینہ تو ہو
جو ہے درونِ ذات وہ چہرہ دکھائی دے
اک شخص میری آنکھوں میں ایسا سما گیا
دیکھوں جدھر بھی اس کا ہی جلوہ دکھائی دے
جو ہمسفر تھے اور نہ کسی رزم میں شریک
ان کے ہی سر پہ جیت کا سہرا دکھائی دے
جو شخص ایک بزم تھا اپنی ہی ذات میں
اب بزم میں بھی آئے تو تنہا دکھائی دے
تم بھی تو شاعری کبھی ایسی کرو سعید
ہر شعر جس کا دل میں اترتا دکھائی دے
احمد سعید خان