ذرا جبیں سے کرو قط سرِ کفن میرا
ؔکہیں وہ دیکھنے آئے نہ بانکپن میرا
اس ایک برق نظر کا شرار تھا میرا
تمام عمر سلگتا رہا بدن میرا
یہ آئینہ تو مجھے کرچیاں بنا دے گا
جو مجھ پہ کرنے لگا ہے عیاں چلن میرا
مرے وجود سے ہو تیرے ذوق کی تسکین
ترے قیام سے سجتا رہے چمن میرا
مجھے معاش کی دیمک نہ چاٹ جائے کہیں
ہے اس کی آنکھ میں پیہم شکستہ پن میرا
میں بات بات پہ گستاخ خود کو ٹوکتا ہوں
قبول عام رہے لہجہء سخن میرا
گستاخ بخاری