loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 08:27

ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک

ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک
ہنسی نے چھوڑ دیا لا کے جگ ہنسائی تک

بھلے سے اب کوئی تیری بھلائی گنوائے
کہ میں نے چاہا تھا تجھ کو تری برائی تک

تو چپکے چپکے مروت سے کیوں بچھڑتا ہے
مرا غرور بھی تھا تیری کج ادائی تک

مجھے تو اپنی ندامت کی داد بھی نہ ملی
میں اس کے ساتھ رہا اپنی نارسائی تک

اس آئینہ کا تو اب ریزہ ریزہ چبھتا ہے
یہ آئینہ جسے تکتی رہی خدائی تک

یہ حادثہ ہے مرے ضبط حال کے ہاتھوں
سفید ہو گئی کاغذ پہ روشنائی تک

پکارتی رہیں آنکھیں چلا گیا ہے کوئی
وہ اک سکوت تھا آواز سے دہائی تک

نکل کے دیکھا قفس سے تو آنکھ بھر آئی
وہ فصل گل کہ کھڑی تھی مری رہائی تک

غضب ہے ٹوٹ کے چاہا تھا شاذؔ نے جس کو
سنا یہ رسم بھی تھی صورت آشنائی تک

شاذ تمکنت

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم