غزل
ذرا سی بات کا دل کو ملال آ ہی گیا
لگی جو ٹھیس تو شیشے پہ بال آ ہی گیا
نہیں جو واقف تہذیب مے کدہ واعظ
زباں پہ ذکر حرام و حلال آ ہی گیا
پکڑ لیا مرے ہاتھوں کو اے خودی تو نے
ترا خیال جو وقت سوال آ ہی گیا
ہر ایک لمحہ اسی انتظار میں گزرا
خدا کا شکر پیام وصال آ ہی گیا
یقیں تھا وعدۂ فردا پہ آپ کے لیکن
گزشتہ وعدوں کا دل میں خیال آ ہی گیا
کچھ ایسا وقت بھی آیا مری خموشی پر
زباں سے موقعۂ اظہار حال آ ہی گیا
ہزار چاہا تھا میں نے عذاب سے بچنا
تعلقات کا سر پر وبال آ ہی گیا
یہ مانتا ہوں کہ بہزادؔ کچھ نہیں لیکن
تمہاری بزم میں یہ خستہ حال آ ہی گیا
بہزاد فاطمی