غزل
ذرا سی بات کے کیا کیا بنے ہیں افسانے
ہمیں جنوں ہی سہی لوگ کیوں ہیں دیوانے
پڑے نہ کام جہاں دوستوں سے کام پڑا
وہیں پہ ٹوٹ گئے مدتوں کے یارانے
نیا ہے عہد مراسم کے ہیں نئے معیار
بدل گئے ہیں خلوص و وفا کے پیمانے
پس غبار تو چہروں کو ہم نے دیکھ لیا
یہ اور بات ہواؤں کے رخ نہ پہچانے
گیا وہ جلوہ وہ جذبہ وہ محفلیں بھی گئیں
نہ اب وہ شمع فروزاں نہ اب وہ پروانے
کسے گماں تھا کہ بن جائیں گے رقیب وہی
وہ خیر خواہ جو آتے تھے ہم کو سمجھانے
ہمیں تو خیر شعور خود آگہی تھا کہاں
یہ کیا کہ اہل نظر بھی ہمیں نہ پہچانے
وہ جاں نثاریٔ باہم وہ پاس عہد وفا
وہ لوگ بزمؔ کہاں کھو گئے خدا جانے
بزم انصاری