ذہن راضی ہوا تو دل نے بغاوت کر دی
آخرش یوں ہوا منزل نے بغاوت کر دی
راگ بکھرا تو ہر ایک ساز نے تیور بدلا
رقص مشکل ہوا محفل نے بغاوت کر دی
کشتیاں ٹوٹیں تو قزاق مرے یار ہوۓ
راہ سوجھی بھی تو ساحل نے بغاوت کر دی
غور سے دیکھو تو حالات سمجھ جاٶگے
کہنا آسان ہے مشکل نے بغاوت کر دی
ایک امید کی ہلکی سی کرن تھا شاہد
اس کی ہر بات سے عادل نے بغاوت کر دی
(ڈاکٹر افروز عالم)