ذہن زندہ ہے مگر اپنے سوالات کے ساتھ
کتنے الجھاؤ ہیں زنجیر روایات کے ساتھ
کون دیکھے گا یہاں دن کے اجالوں کا ستم
یہ ستارے تو چلے جائیں گے سب رات کے ساتھ
جانے کس موڑ پہ منزل کا پتہ بھول گئے
ہم کہ چلتے ہی رہے گردش حالات کے ساتھ
وقت کرتا ہے بھلا کس سے یہاں حسن سلوک
وہ بھی اس دور میں قانون مکافات کے ساتھ
وہ تو خنجر تھا گلے جس نے لگایا ہم کو
ورنہ پیش آتا ہے اب کون مدارات کے ساتھ
حادثے ہیں تو انہیں پیش بھی آنا ہے ضرور
وہ بھی اس شوخ سے تقریب ملاقات کے ساتھ
کون سنتا ہے یہاں دل کی کہانی تنویرؔ
وہ بھی خوشبوؤں کے موہوم اشارات کے ساتھ
تنویر احمد علوی